۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 361716
31 جولائی 2020 - 13:48
مولانا گلزار جعفری

حوزہ/عصمت کی نیابت کا عظیم شرف پانے والا سفیر حسینی کے لقب سے ملقب سرکار سیدالشھداء کا معتبر ترین بھاءی بھی اور معتمدو موثق انسان جس کا نام‌ نامی اسم گرامی ہےحضرت  مسلم بن عقیل علیہ السلام

تحریر: خطیب شعور گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی | عصمت کی نیابت کا عظیم شرف پانے والا سفیر حسینی کے لقب سے ملقب سرکار سیدالشھداء کا معتبر ترین بھاءی بھی اور معتمدو موثق انسان جس کا نام‌ نامی اسم گرامی ہےحضرت  مسلم بن عقیل ع  شجاعت کو جس پر ناز ہے حکمت جس کی ہمراز ہے جرات و شہامت جس کی آواز ہے جو گرجتا ہوا شیر نیستان حیدر ہےجو عفتوں کا اعتبار اور عصمتوں کا نگہبان ہے جس کی فضیلت کے لیے حسین ابن علی ع کے دہن عصمت سے نکلے ہوے الفاظ قیامت تک کے لیے سند فضیلت ہیں کتاب کربلا کی تمہید، سانحہ نینوا کا خلاصہ، مقصد ارض کربلا کا اولین شھید، راہ حق کا عظیم مجاہد لشکر حسینی کے ہراول دستہ کا بہترین غازی و دلیر  جس پر نظر انتخاب حسین ابن علی ع جا کر ٹھر گئی۔
 مگر یہ سوال بھی ذہن انسانی میں گردش کرتا ہے کہ عصمتوں کے ہوتے ہوے اور شجاعتوں کی موجودگی میں کوفہ کے لیے مسلم ہی کو عہدہ سفارت پر فایز کیوں کیا گیا  اگر مقام سفارت کے لیے عصمت ضروری ہوتی تو سید سجاد کا انتخاب عمل میں آتا اور اگر بے پناہ شجاعت کی ضرورت تھی تو عباس ابن علی ع کو سفیر بنایا جاتا، نو عمری اور نو جوانی کو ملحوظ نظر رکھا جاتا تو علی اکبر ع کو بھیجا جاتا مگر ان سب شخصیتوں کے درمیان سے کوفہ کی سیاسی فضاووں کے لیے حکیم کربلا نے جس عالم و فقیہ مجاہد و شجاع کا انتخاب کیا وہ مسلم بن عقیل تھے۔ 
اس سوال کے مختلف جوابات ہو سکتے ہیں جو تاریخی استناد اور عقل کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں بس ذرا دریچہ فکر واں ہو اور وادی تامل میں چراغ عقیدت کے ساتھ شمع برھان بھی فیروزاں رکھی جائے۔  
چودہ سو سال سے اب تک صفحہ کربلا پر نہ جانے کتنا کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا مفکرین مدبرین اہل خرد اہل شعور اہل قلم اپنی تمامتر کاوشوں کو بروءے کار لا کر صفحہ قرطاس پر عقیدتوں کے موتی بکھیر رہے ہیں جب ہم واقعہ کربلا پر غور و خوض کرتے ہیں تو یہ نکتہ بھی قابل تامل ہیکہ مقصد حسینی کو سرزمین کربلا کے جغرافیائی حدود میں محدود کرنا کسی طور بھی قرین عقل و منطق نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ کربلا محوری کردار ہے مقصد حسینی کا جس کے اطراف و جوانب میں مدینہ بھی ہے ، کوفہ و شام بھی اور مکہ مکرمہ بھی مقصد حسینی کی ترجمانی کے لیے ہر جگہ اپنے نمایندوں کا انتخاب حسب حال اور حسب ضرورت تھا 
کسی کو مدینہ میں چھوڑنا ضروری تھا تاکہ انقلاب کربلا کے بعد مدینہ کی سیاسی فضا میں مظلومیت آل محمد کے دامن پر خارجیت کا بد نما داغ نہ لگایا جاسکےاسی طرح مکہ میں چار ماہ چند دن رک کر وہاں کے حالات کو قابو کیا اور امت مسلمہ کو موجودہ حکومت کے خدو خال سے آگاہ کیا اور جب حاجیوں کے لباس میں قاتل حرم خدا کو خون ناحق سے رنگین کرنے کی بنی امیہ کی سازش کو دیکھا تو حج کو عمرہ سے بدل کر من‌دخلہ کان آمنا کی آیت کی لاج رکھ لی
کوفہ جو انقلاب کے لیے ایک بنیادی سنگ میل تھا جہاں قبل و بعد انقلاب کی آواز خطہ عرب سے عالم‌انسانیت تک پہنچانا تھا اس لیے دوطرفہ نیابتوں کا سلسلہ قایم کیا گیا اور ایک فقیہ وقت کو اپنے درمیان سے منتخب کیا گیا ورنہ وہاں ایک فقیہ پہلے سے موجود تھا جس امام وقت نے خط لکھ کر بلایا گویا کوفہ سے آءے ہوءے خطوط کے جواب میں بھی فقیہ اور کربلا سے خط لکھ کر بھی فقیہ کو ہی بلایا جس سے صاحبان عقل و شعور کو ضرورت فقیہ کا درس با خوبی سمجھ لینا چاہیے اور کمال نگاہ انتخاب حسین ابن علی کو لاکھوں سلام کے دونوں فقیہ غیر معصوم قرار دے کر کربلایی قوم کو عظمت فقیہ کی جانب قیامت تک متوجہ کردیا کہ جس زمانہ میں بھی کوفہ صفت قوم مسلم عصر کو تنہا چھوڑ دیگی وہ غدار بے وفا اور ضمیر فروش گردانے جاءیگی آج کا ابن زیاد اگر ڈالر اور پاؤنڈ سے خریداری شروع کر دیگا تو آج کا مسلم عصر بشکل رہبر معظم وادی رے میں تنہا نظر آءیگا  لہذا صاحبان ایمان عقل کے ناخن لیں اور اس دور پر آشوب میں سیاسی بصیرت کو اپناءیں کونکہ کل کوفہ والے بھی سیاسی بصیرت کھو چکے تھے تو شوق مال و متاع اور خوف جان و مال میں نایب امام کے خلاف ہو گیے ہم سمجھتے ہیں کوفہ فقط ایک علاقہ نہیں ہے بلکہ ضمیر فروشوں کی ایک تہذیب ہے جو کسی علاقہ کو بھی کوفہ صفت اور کوفہ عدد بنا سکتی ہے تری پار کے کءی علاقہ خلاف مرجعیت و نیابت معصوم میں کوفہ بن چکیں خدا ہم سب کو عظمت فقیہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اور دونوں فقیہوں کے لیے توقیع یا تحریر کو سند بنایا مسلم کے ساتھ اہل کوفہ کے مختصرا یا اشارتاً خطوط میں مسلم بن عقیل کا فقیہانہ تعارف اور حبیب ابن مظاہر کے لیے امام ع کی وہ مشھور تحریر من حسین الغریب الی رجل فقیہ
سے اس بات کا اندازہ با خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ امام وقت کی توقیع یا تحریر کسی فقیہ کی سند کے لیے کافی ہے خواہ وہ اجمالی ہو یا شخصی ہو گرچہ فاصلہ اور بلا فاصلہ کے خط فاصل میں  قیاس مع الفارق  ہے مگر عظمت و اہمیت فقیہ نظر سید الشہداء ع میں کیا ہے یہ بات اھل شعور کے لیے پردہ خفا میں نہیں ہے آج فقاہت و مرجعیت پر اعتراض کرنے والوں کو چاہیے کہ اپنے نظریات پر نظر ثانی فرمائیں خدا سب کو ہدایت دینے والا ہے۔ 
 تاریخ میں بنی امیہ کے نمک خواروں نے جناب عقیل کی شخصیت کو مضمحل کرنے کے لیے بہت سے افسانہ گھڑھے جس کا شکار نادان دوست بھی ہوءے جن کو تہذیب آل محمد کا ادراک نہ ہو سکا ان افسانوں سے احتراز کرتے ہوے صرف اس گوشۂ تاریخ کی جانب اشارہ کر دیں جس میں حاکم شام نے اہل کوفہ میں یہ فکر رایج کردی کہ عقیل کثرت اولاد اور طلب مال کی خاطر بیعت علی ع سے نکل کر حاکم شام لعن  سے جا ملے ہیں  حکیم کربلا نے مسلم کو سفیر بنا کر کوفہ میں شاید اس لیے بھی بھیجا کہ وہ دامن کردار عقیل پر لگاءی گیے داغ کو اپنی حکمت عملی سے دھو دیں اور یہی ہوا کہ مسلم کو دیکھ کر اہل کوفہ کو سمجھ آ گیا کی نہ کل عقیل نے علی ع کو چھوڑا تھا نہ آج مسلم نے عقیل کو اس لیے ضروری تھا کہ کسی اور کے بجاءے صرف مسلم ع ہی کو کوفہ سفیر بنا کر بھیجا جاۓ۔  
ایک جواب یہ بھی ممکن ہیکہ چونکہ کربلا قیامت تک جانے والا اور بقاء اسلام کا ضامن ہے اور حضرت عمران کا اسلام پھیلانے میں نمایاں ہاتھ ہے تو بچانے میں بھی اولاد ابو طالب ہر محاذ پر رہیں  اس لیے حکیم کربلا نے مدینہ کا محاذ اولاد جعفر کو دیا کوفہ میں اولاد عقیل اور کربلا میں اولاد علی ع تاکہ ہر جہت سے بقاء اسلام میں اولاد ابو طالب کا لہو شامل رہے یہ روش ادراک کا سفر ہے گرچہ قابل نقاش بھی ہےاور  دعوے حرف اخیربھی  نہیں ہے۔ 
ایک پہلو واقعہ کربلا میں تجزیاتی طور پر تقسیم طاقت بھی ہے کیونکہ امام وقت کربلا جنگ کے ارادہ سے نہیں جا رہے تھے اس لیے جمع شدہ قوتوں کی تقسیم ضروری تھی لہذا اس دور کے بہادر ترین مجاہدوں کی تقسیم کچھ اس طرح بھی کی گءی حضرت عبداللہ بن جعفر طیار جو اپنے زمانہ کے مشہور شجاع تھے جو لوہے کی زرہ کو ہاتھ سے پھاڑ دیا کرتے تھے ان کو مدینہ میں چھوڑ دیا اور روایت میں ہیکہ امام نے فرمایا ان تکون لی عینا میری آنکھیں بن کر مدینہ میں رہو 
جناب مسلم کی شجاعت کا شہرہ عالم عرب میں کس قدر تھا وہ محمد بن اشعث کے تاریخی فقرہ سے واضح ہے کوفہ کے کسی بنیا و بقال سے جنگ نہیں ہو رہی ہے علی کا شیر ہے اور لشکر بھیج  سید سجاد ع کا روز عاشورہ مرض میں مبتلا ہونا بھی قوت کی تقسیم کا ایک أبرز پہلو ہے جناب عباس کا روز عاشور کءی عدد کنویں کھودنا بھی قوت تقسیم ہی کا ایک راز جلی ہے جہاں تک سمجھ سکیں ہیں وہ یہ ہے باقی حقیقی حکمت تو حکیم کربلا ہی جانیں رب کریم ہمیں کربلا سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .